چلتے ہو تو چین کوچلئے از ابن انشاء

چلتے ہو تو چین کوچلئے از ابن انشاء

چلتے ہو تو چین کو چلئے ابن انشاء کا چین کا سفر نامہ ہے جس میں انہوں نے اپنے چین کے سفر کو نہایت دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے


چلتے ہو تو چین کوچلئے از ابن انشاء


نام کتاب :- چلتے ہو تو چین کو چلئے 

مولف :- ابن انشاء

صفحات :- 141

فائل سائز :-  8 ایم ۔ بی 

کتاب بارے میں :-  

 چلتے ہو تو چین کو چلئے ابن انشاء کا چین کا سفر نامہ ہے ۔ ابن انشاء کا اصلی نام شیر محمد خان تھا اور تخلص انشا. آپ 15 جون 1927ء کو جالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے ، 1946ء میں جامعہ پنجاب سے بی اے اور 1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔  1962ء میں نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ 

ٹوکیو بک ڈولپمنٹ پروگرام کے وائس چیئرمین اور ایشین کو پبلی کیشن پروگرام ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رکن تھے۔ روزنامہ جنگ کراچی اور روزنامہ امروز لاہور کے ہفت روزہ ایڈیشنوں اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں ہلکے فکاہیہ کالم لکھتے تھے۔ ابن انشاء نے یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے متعدد یورپی و ایشیائی ممالک کا دورہ کیا تھا۔ جن کا احوال اپنے سفر ناموں میں اپنے مخصوص طنزیہ و فکاہیہ انداز میں تحریر کیا۔

 ابنِ انشاء کی تصانیف میں چلتے ہو تو چین کو چلیے، آوارہ گرد کی ڈ ائری سے، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں ، آپ سے کیا پردہ، اردو کی آخری کتاب، اس بستی کے اک کوچے میں، چاند نگر، دلِ وحشی، اور چند چینی نظموں کا ترجمہ شامل ہے. چلتے ہو تو چین کو چلئے ابن انشاء کا چین کا سفر نامہ ہے جس میں انہوں نے اپنے چین کے سفر کو نہایت دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے نہ صرف اپنے سفر کی داستان بیان کی ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ چین کی قدیم اور جدید تہذیب کو بھی بہت مؤثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ابنِ انشاء خود کو وحشی اور دیوانہ کہتے تھے مگر معاشرتی مسائل کو طنزیہ انداز میں پیش کر کے لوگوں کو ہنسانے کا فن خوب جانتے تھے

 ابن انشا نے اپنے سفر ناموں میں عام قاری کی دلچسپی کے لئے معلوماتی مواد فراہم کرنے ، تاریخی واقعات بیان کرنے اور شخصیات کی سوانح نگاری کا فریضہ ادا کرنے کی کاوش بھی کی ہے۔ انہوں نے سفر نامے کو بیانیہ اسلوب میں بھی پیش کیا ، کہیں قاری کو خطاب کرنے کی سعی کی اور کہیں درویش کا روپ دھار کر داستانی اسلوب اختیار کیا۔انہوں نے سفر نامے میں طنز لطیف اس طرح شامل کیا ہے کہ بات میں عمق اور اثر آفرینی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ دوسرے ممالک کے معاشروں میں خیر اور نیکی کی قدروں کی جستجو زیادہ کرتے ۔ ان کے ہاں لفظوں، محاوروں اور ضرب الامثال کی ہیئت تبدیل کرنے اور مزاجی کیفیت پیدا کرنے کا رجحان بھی نمایاں ہے۔ اپنی اس صلاحیت سے انہوں نے سفر ناموں میں جابہ جافائدہ اٹھایا ہے۔

 اس سفرنامہ میں وہ چین کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں دودھ بھی گائیوں اور بھینسوں کا ہوتا ہے۔۔ تالابوں یا کمیٹی کے نلکوں سے حاصل نہیں کیا جاتا۔۔ ۔ وہاں آزادی کی سخت کمی ہے ہمارے ایک ساتھی جو اپنے ساتھ پاندان لے کر گئے تھے بار بار فرماتے تھے کہ یہ کیسا ملک ہے، جہاں سڑک پر بھی تھوک نہیں سکتے۔

مزید کہتے ہیں :- ایک صاحب شاکی تھے کہ یہاں خریداری کا لطف نہیں، دکاندار بھاؤ تاؤ نہیں کرتے۔ ہوٹل کے بیروں کو بخششیں لینے اور مسافروں کو بخششیں دینے کی آزادی نہیں۔ بسوں اور کاروں کے اختیارات بھی محدود ہیں۔ آپ اپنی بس کو فٹ پاتھ پر نہیں چڑھا سکتے نہ کسی مسافر کے اوپر سے گزار سکتے ہیں۔ "

 اس کتاب کو آن لائن پڑھنے اور PDF فارمیٹ میں  ڈاونلوڈ کرنے  کی لنکس مہیا کر دی گئی ہیں ،امید ہے آپ استفادہ کریں گے اور اس علمی کام میں تعاون کرتے ہوئے اسے شیر بھی کریں گے۔


اس کتاب کو آن لائن پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 


اس کتاب کو ڈاونلوڈ کرنے کے لئے ذیل کا بٹن دبائیں

چلتے ہو تو چین کوچلئے از ابن انشاء 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نا ممکن سے ممکن کا سفر

کامیابی کے اصول

Don't Be Sad Urdu